کچھ بھی نہ چلی پیش کوئی روپ بدل کے
میں زیر ابد کا ہوں، زبر ہیں وہ ازل کے
تجھ کو نہ ڈبو دے کہیں اے ہجرِ مسلسل
تلخابۂ حسرت مری آنکھوں سے نکل کے
پتھر بھی ہیں، کانٹے بھی ہیں، آسیب ِ سفر بھی
رک جا دلِ نادان ، ذرا چلنا سنبھل کے
بیمارِ بتاں کو ملے جب شرفِ ملاقات
دل دوڑ کے باہر کو ہی آوے ہے مچل کے
ہر روز امرؔ خواب سجاتا ہوں میں دل میں
ہر روز گزر جائیں وہ تعبیر کچل کے
اَمر رُوحانی
No comments:
Post a Comment