یوم پیدائش 14 جولائی 1914
آج آئے ہیں کل جانا ہے پھر عشق کو رسوا کون کرے
دو روزہ دنیا ہے یہ تو دنیا کی تمنا کون کرے
مجبور نہیں مختار سہی خودداری کو رسوا کون کرے
جب موت ہی مانگے سے نہ ملی جینے کی تمنا کون کرے
اس لذت غم کا کیا کہنا وہ یاد تو آتے رہتے ہیں
غم دینے والے کے صدقے اب غم کا مداوا کون کرے
بر آئے تمنا جب نہ کوئی پھر ایسی تمنا سے حاصل
گو دل کا تقاضہ لاکھ سہی توہین تمنا کون کرے
ہونٹوں پہ ہنسی آنکھوں میں نمی ماتھے پہ شکن بل ابرو میں
اللہ ری طرز پرسش غم اب غم کا شکوہ کون کرے
مخمور فضا مستانہ گھٹا ساغر کی کھنک غنچوں کی چٹک
اب ایسے موسم میں ساقی اندیشۂ فردا کون کرے
کیوں اپنے نشیمن کو خود ہی اب آگ لگا دیں ہم نہ سعیدؔ
بجلی کی شکایت کون کرے آندھی کا شکوہ کون کرے
سعید شہیدی
No comments:
Post a Comment