یوم پیدائش 15 جولائی 1975
ہر اک جواب کی تہ میں سوال آئے گا
گئے یگوں کے بتوں کا زوال آئے گا
ہنر کا عکس بھی ہو آئنہ بھی بن جاؤ
پھر اس کے بعد ہی رنگ کمال آئے گا
حریف جاں ہے اگر وہ تو پھر کہو اس سے
گئی جو جان تو دل کا سوال آئے گا
یقین ہے کہ ملے گا عروج ہم کو بھی
یقین ہے کہ ترا بھی زوال آئے گا
ابھی امید کو مایوسیوں کا رنگ نہ دے
ٹھہر ٹھہر ابھی اس کا خیال آئے گا
اسی کے شہہ پہ بجھے گا چراغ دل عادلؔ
نہاں خلوص میں جو اشتعال آئے گا
عادل حیات
No comments:
Post a Comment