یوم پیدائش 15 جولائی 1931
صدیوں سے زمانے کا یہ انداز رہا ہے
سایہ بھی جدا ہو گیا جب وقت پڑا ہے
بھولے سے کسی اور کا رستہ نہیں چھوتے
اپنی تو ہر اک شخص سے رفتار جدا ہے
اس رند بلا نوش کو سینے سے لگا لو
مے خانے کا زاہد سے پتا پوچھ رہا ہے
منجدھار سے ٹکرائے ہیں ہمت نہیں ہارے
ٹوٹی ہوئی پتوار پہ یہ زعم رہا ہے
گھر اپنا کسی اور کی نظروں سے نہ دیکھو
ہر طرح سے اجڑا ہے مگر پھر بھی سجا ہے
میکش کسی تفریق کے قائل ہی نہیں ہیں
واعظ کے لیے بھی در مے خانہ کھلا ہے
یہ دور بھی کیا دور ہے اس دور میں یارو
سچ بولنے والوں کا ہی انجام برا ہے
جمیلؔ مرصع پوری
No comments:
Post a Comment