یوم پیدائش 08 جولائی 1913
مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے
اس زندگی کو ہم نے بہت کچھ دیا بھی ہے
محسوس ہو رہا ہے کہ تنہا نہیں ہوں میں
شاید کہیں قریب کوئی دوسرا بھی ہے
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
غرقاب کر دیا تھا ہمیں ناخداؤں نے
وہ تو کہو کہ ایک ہمارا خدا بھی ہے
ہو تو رہی ہے کوشش آرائش چمن
لیکن چمن غریب میں اب کچھ رہا بھی ہے
اے قافلے کے لوگو ذرا جاگتے رہو
سنتے ہیں قافلے میں کوئی رہنما بھی ہے
ہم پھر بھی اپنے چہرے نہ دیکھیں تو کیا علاج
آنکھیں بھی ہیں چراغ بھی ہے آئنا بھی ہے
اقبالؔ شکر بھیجو کہ تم دیدہ ور نہیں
دیدہ وروں کو آج کوئی پوچھتا بھی ہے
اقبال عظیم
No comments:
Post a Comment