یوم پیدائش 25 جولائی 1988
ترا خیال کبھی چھو کے جب گزرتا ہے
بدن کے رنگ سے آنچل مرا مہکتا ہے
نئے زمانے نئے موسموں سے گونجتے ہیں
کوئی پرندہ مری چھت پہ بھی چہکتا ہے
وہ غفلتوں کا پرستار ہو گیا ہے اگر
دعا کروں گی ، مرا دکھ خدا تو سنتا ہے
تمھارے ہجر میں کرتا ہے کون دل جوئی
وہ کون ہے جو غموں کی رتیں بدلتا ہے
حسین ہو تو ادائیں بھی تم سے پھوٹیں گی
بڑے غرور میں ہو پر تمہارا بنتا ہے
تمہارے نین طلسمات سے بھرے ہوئے ہیں
انہی کی دید سے ہر غم ہمارا ٹلتا ہے
ہم ایسے لوگ نہیں ہر کسی پہ مر جائیں
ذرا بتا نا ! ہمیں کیا کوئی سمجھتا ہے
یہ تیرا غم ہے اسے خود سنبھال لے آ کر
بھٹکنے والا نہیں ہے مگر بھٹکتا ہے
رباب کافی نہیں کیا مری خوشی کے لیے
میں سوچتی ہوں وہ مجھ کو دکھائی دیتا ہے
فوزیہ رباب
No comments:
Post a Comment