یوم پیدائش 01 جولائی 1998
چھا چکی ہے ہر طرف اب تیرگی سو جائیے
منہ چھپائے پھر رہی ہے روشنی سو جائیے
کیوں ابھی سے پھیرتے ہیں آپ ہونٹوں پر زباں
اور بڑھنے دیجیے کچھ تشنگی سو جائیے!!
منتظر ہے اتنا سننے کے لیے پلکوں پہ نیند
ہم بھی سونے جا رہے ہیں آپ بھی سو جائیے
جاگنے کی دیکھکر ایسی سزائیں الاماں
آدمی سے کہہ رہا ہے آدمی سو جائیے
اس سے پہلے ڈھونڈ لے وحشی زمانہ آپ کو
میری بانہوں میں سمٹ کر خامشی سو جائیے
کچھ بچا لیجے اب آنسو کل بھی رونے کے لیے
کل بھی ملنے آئینگے کچھ ماتمی سو جائیے
وہ کمال بندگی کی منزلت کا ہو سفر
خود خدا بولے ہوئی بس بندگی سو جائیے
سفر نقوی
No comments:
Post a Comment