یوم پیدائش 13 جولائی 1864
ہمارے زخم میں ٹھنڈک لہو سے ہوتی رہتی ہے
تسّلی دل کی تکلیفِ رفو سے ہوتی رہتی ہے
زمانہ قدر داں ہوتا ہے صورت اور سیرت کا
گلوں کی قدر جیسے رنگ و بو سے ہوتی رہتی ہے
نہیں تکلیف سے خالی کسی کا پھولنا پھلنا
شجر پر سنگ باری چار سو سے ہوتی رہتی ہے
جو میں آپ آپ کہتا ہوں حقارت وہ سمجھتے ہیں
مری عزت فزائی لفظ ” تُو “ سے ہوتی رہتی ہے
قناعت کرتی رہتی ہے جو سیپی اگر نیساں پر
بسر دُرِّ عدن کی آبرو سے ہوتی رہتی ہے
ہے مجھ پہ مہرباں اس قدر تکلیف زنداں کی
کہ خم گردن میری طوق گلو سے ہوتی رہتی ہے
میانِ میکدہ جب دیر تک ساقی نہیں ملتا
تشفی رند کی جام و سبو سے ہوتی رہتی ہے
افق کی میکشی کی حافظِ شیراز کی صورت
زمانے میں شہرت لکھنؤ سے ہوتی رہتی ہے
افق لکھنؤی
No comments:
Post a Comment