حَشمت و جَاہ کی توقِیر بدل جاتی ہے
بَخت ڈَھل جاتے ہیں ' تقدیر بدل جاتی ہے
وَجد میں ہوش کہاں رہتا ہے دِیوانے کو
رَقص میں پاؤں کی زنجیر بدل جاتی ہے
روز بدلے ہوئے لگتے ہیں مَنَاظَر مُجھ کو
روز ہی شہر کی تعمِیر بدل جاتی ہے
میں بناتی ہوں جوانی کے خَد و خَال مگر
عُمر ڈَھلتی ہے تو تصویر بدل جاتی ہے
تیرے چُھوتے ہی مُحبت کے مسِیحا میرے
جِسم میں خُون کی تاثِیر بدل جاتی ہے
کُچھ بھی رہتا نہیں تادیر مُحبت کے سِوا
نَقش مِٹ جاتے ہیں تحریر بدل جاتی ہے
حنا کوثر
No comments:
Post a Comment