یوم پیدائش 12 جولائی 1936
عادت مری دنیا سے چھپانے کی نہیں تھی
وہ بات بھی کہہ دی جو بتانے کی نہیں تھی
میں خوش ہوں بہت گرد کو آئینے پہ رکھ کر
دی وہ مجھے صورت جو دکھانے کی نہیں تھی
ہم کھا گئے دھوکا تری آنکھوں کی نمی سے
وہ چوٹ دکھا دی جو دکھانے کی نہیں تھی
اچھا ہوا نیند آ گئی ارباب وفا کو
آگے یہ کہانی بھی سنانے کی نہیں تھی
یوں دل کو کیا شعلۂ غم تیرے حوالے
اس گھر میں کوئی چیز بچانے کی نہیں تھی
کچھ اس لئے اپنا نہ سکا اس کو زمانہ
صولتؔ کی جو عادت تھی زمانے کی نہیں تھی
صولت زیدی
No comments:
Post a Comment