یوم پیدائش 16 جولائی 1950
زیست کی دھوپ سے یوں بچ کے نکلتا کیوں ہے
تو جو سورج ہے تو پھر سائے میں چلتا کیوں ہے
تو جو پتھر ہے تو پھر پلکوں پہ آنسو کیسے
تو سمندر ہے تو پھر آگ میں جلتا کیوں ہے
میرے چہرے میں جو شائستہ نظر آتا ہے
میری شریانوں میں وہ شخص ابلتا کیوں ہے
کل تمہیں نے اسے یہ پیالہ دیا تھا یارو
معترض کیوں ہو کہ وہ زہر اگلتا کیوں ہے
میری سانسوں میں سسکنے کی صدا آتی ہے
ایک مرگھٹ سا مرے سینے میں جلتا کیوں ہے
جانے کن ذروں سے اس خوں کی شناسائی ہے
پاؤں اس موڑ پہ ہی آ کے پھسلتا کیوں ہے
محفل لغو سے تہذیب نے کیا لینا ہے
ایسے شوریدہ سروں میں تو سنبھلتا کیوں ہے
اسلم حبیب
No comments:
Post a Comment