یوم پیدائش 15 سپتمبر 1946
ہاتھ ہاتھوں میں نہ دے بات ہی کرتا جائے
ہے بہت لمبا سفر یوں تو نہ ڈرتا جائے
جی میں ٹھانی ہے کہ جینا ہے بہرحال مجھے
جس کو مرنا ہے وہ چپ چاپ ہی مرتا جائے
خود کو مضبوط بنا رکھے پہاڑوں کی طرح
ریت کا آدمی اندر سے بکھرتا جائے
سرخ پھولوں کا نہیں زرد اداسی کا سہی
رنگ کچھ تو مری تصویر میں بھرتا جائے
مجھ سے نفرت ہے اگر اس کو تو اظہار کرے
کب میں کہتا ہوں مجھے پیار ہی کرتا جائے
گھر کی دیوار کو اتنا بھی تو اونچا نہ بنا
تیرا ہمسایہ ترے سائے سے ڈرتا جائے
افتخار نسیم
No comments:
Post a Comment