یوم پیدائش 15 سپتمبر 1949
کبھی تیرے خط کو جلا دیا کبھی نام لکھ کے مٹا دیا
یہ مری انا کا سوال تھا تجھے یاد کر کے بھلا دیا
نیا آرزو کا مزاج ہے نئے دور کی ہیں رفاقتیں
تری قربتوں کا جو زخم تھا تری دوریوں نے مٹا دیا
مجھے ہے خبر تجھے عشق تھا فقط اپنے عکس جمال سے
کہ میں گم ہوں تیرے وجود میں مجھے آئینہ سا بنا دیا
میں حصار میں تو حصار میں اسی سلسلے کو دوام ہے
کبھی مصلحت نے جدا کیا تو کبھی غرض نے ملا دیا
سبھی کہہ رہے ہیں یہ برملا جو گزر گیا وہی خوب تھا
ابھی ایک پل جو ہے آسرا اسے سب نے یوں ہی گنوا دیا
وہ شرر ہو یا کہ چراغ ہو ہے تپش مزاج میں اے حجابؔ
کبھی ہر نفس کو جلا دیا کبھی روشنی کو بڑھا دیا
سلمیٰ حجاب
No comments:
Post a Comment