یوم پیدائش 14 سپتمبر 1985
فصیل جسم گرا دے مکان جاں سے نکل
یہ انتشار زدہ شہر ہے یہاں سے نکل
تری تلاش میں پھرتے ہیں آفتاب کئی
سو اب یہ فرض ہے تجھ پر کہ سائباں سے نکل
تمام شہر پہ اک خامشی مسلط ہے
اب ایسا کر کہ کسی دن مری زباں سے نکل
مقام وصل تو ارض و سما کے بیچ میں ہے
میں اس زمین سے نکلوں تو آسماں سے نکل
میں اپنی ذات میں تاریکیاں سمیٹے ہوں
تو اک چراغ جلا اور اب یہاں سے نکل
کہا تھا مجھ سے بھی اک دن ہوائے صحرا نے
مری پناہ میں آ جا غبار جاں سے نکل
ابھیشیک شکلا
No comments:
Post a Comment