یوم پیدائش 25 سپتمبر 1912
خواب کا عکس کہاں خواب کی تعبیر میں ہے
مجھ کو معلوم ہے جو کچھ مری تقدیر میں ہے
میری روداد محبت کو نہ سننے والے
تجھ میں وہ بات کہاں جو تری تصویر میں ہے
پیکر خاک بھی ہوں باعث کونین بھی ہوں
کتنا ایجاز نمایاں مری تفسیر میں ہے
پھول بن کر بھی یہ احساس شگوفے کو نہیں
میری تخریب کا پہلو مری تعمیر میں ہے
حسن کے ساتھ تجھے حسن وفا بھی ملتا
اسی حلقے کی ضرورت تری زنجیر میں ہے
وسعت دامن رحمت کی قسم کھاتا ہوں
عذر تقصیر بھی داخل حد تقصیر میں ہے
ایک تہہ دار یہ مصرع ہے جواب خط میں
کس قدر شوخ بیانی تری تحریر میں ہے
کیا تماشا ہے یہ اے پائے جنون رسوا
کبھی زنجیر سے باہر کبھی زنجیر میں ہے
جانے کب اس پہ اجالے کو ترس آئے گا
وہ سیہ پوش فضا جو مری تقدیر میں ہے
گفتگو ہوتی ہے اکثر شب تنہائی میں
ایک خاموش تکلم تری تصویر میں ہے
میری نظروں میں یہی حسن تغزل ہے عروجؔ
شعر گوئی کا مزا پیروی میرؔ میں ہے
عروج زیدی بدایونی

No comments:
Post a Comment