Urdu Deccan

Sunday, September 26, 2021

عروج زیدی بدایونی

 یوم پیدائش 25 سپتمبر 1912


خواب کا عکس کہاں خواب کی تعبیر میں ہے

مجھ کو معلوم ہے جو کچھ مری تقدیر میں ہے


میری روداد محبت کو نہ سننے والے

تجھ میں وہ بات کہاں جو تری تصویر میں ہے


پیکر خاک بھی ہوں باعث کونین بھی ہوں

کتنا ایجاز نمایاں مری تفسیر میں ہے


پھول بن کر بھی یہ احساس شگوفے کو نہیں

میری تخریب کا پہلو مری تعمیر میں ہے


حسن کے ساتھ تجھے حسن وفا بھی ملتا

اسی حلقے کی ضرورت تری زنجیر میں ہے


وسعت دامن رحمت کی قسم کھاتا ہوں

عذر تقصیر بھی داخل حد تقصیر میں ہے


ایک تہہ دار یہ مصرع ہے جواب خط میں

کس قدر شوخ بیانی تری تحریر میں ہے


کیا تماشا ہے یہ اے پائے جنون رسوا

کبھی زنجیر سے باہر کبھی زنجیر میں ہے


جانے کب اس پہ اجالے کو ترس آئے گا

وہ سیہ پوش فضا جو مری تقدیر میں ہے


گفتگو ہوتی ہے اکثر شب تنہائی میں

ایک خاموش تکلم تری تصویر میں ہے


میری نظروں میں یہی حسن تغزل ہے عروجؔ

شعر گوئی کا مزا پیروی‌‌ میرؔ میں ہے


عروج زیدی بدایونی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...