یوم پیدائش 25 سپتمبر 1928
دل کا معاملہ وہی محشر وہی رہا
اب کے برس بھی رات کا منتظر وہی رہا
نومید ہو گئے تو سبھی دوست اٹھ گئے
وہ صید انتقام تھا در پر وہی رہا
سارا ہجوم پا پیادہ چوں کہ درمیاں
صرف ایک ہی سوار تھا رہبر وہی رہا
سب لوگ سچ ہے با ہنر تھے پھر بھی کامیاب
یہ کیسا اتفاق تھا اکثر وہی رہا
یہ ارتقا کا فیض تھا یا محض حادثہ
مینڈک تو فیل پا ہوئے اژدر وہی رہا
سب کو حروف التجا ہم نذر کر چکے
دشمن تو موم ہو گئے پتھر وہی رہا
بلراج کومل

No comments:
Post a Comment