اک داغِ عشق یوں مری چادر میں آ گیا
سوچا نہیں تھا جو وہ مقدر میں آ گیا
بے اختیار ،عشق سے ، ۔پردہ اٹھا گیا
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"
جب جب یہ زندگی مجھے بے آسرا لگی
سایہ کسی کے ہاتھ کا منظر میں آگیا
خوشبو سی آرہی ہے یہ کس کی قریب سے
دیکھوں تو اب یہ کون برابر میں آگیا
چشمِ طلب میں پیاس کی جب انتہا ہوئی
صحرا بھی چل کے آپ سمندر میں آگیا
رکھی تھی میں نے خود پہ بھی اتنی کڑی نظر
غدار کوئی کس طرح لشکر میں آگیا
مہمان جان کر اسے کیسے کروں وداع
"دستک دیے بغیر مرے گھر میں آگیا"
ماہناز بنجمن
No comments:
Post a Comment