یوم پیدائش 25 سپتمبر 1942
ان اجڑی بستیوں کا کوئی تو نشاں رہے
چولھے جلیں کہ گھر ہی جلیں پر دھواں رہے
نیرو نے بنسری کی نئی تان چھیڑ دی
اب روم کا نصیب فقط داستاں رہے
پانی سمندروں کا نہ چھلنی سے ماپیے
ایسا نہ ہو کہ سارا کیا رائیگاں رہے
مجھ کو سپرد خاک کرو اس دعا کے ساتھ
آنگن میں پھول کھلتے رہیں اور مکاں رہے
کاٹی ہے عمر رات کی پہنائیوں کے ساتھ
ہم شہر بے چراغ میں اے بے کساں رہے
آذرؔ ہر ایک گام پہ کاٹا ہے سنگ جبر
ہاتھوں میں تیشہ سامنے کوہ گراں رہے
اعزاز احمد آذر
No comments:
Post a Comment