یوم پیدائش 17 سپتمبر 1977
آنکھ ہے اک کٹورا پانی کا
اور یہ حاصل ہے زندگانی کا
رائیگاں کر گیا مجھے آخر
خوف ایسا تھا رائیگانی کا
چل نکلتا ہے سلسلہ اکثر
خوش گمانی سے بد گمانی کا
کیا ٹھکانہ غم و خوشی کا ہو
دل علاقہ ہے لا مکانی کا
جا کے دریا میں پھینک آیا ہوں
یہ کیا ہے تری نشانی کا
جس کا انجام ہی نہیں کوئی
میں ہوں کردار اس کہانی کا
مدعا نظم ہو نہیں پایا
شعر دھوکہ ہے ترجمانی کا
سلمان ثروت

No comments:
Post a Comment