سوا خدا کے کسی کا بھی ڈر نہیں رکھتے
جھکا کے اپنا کہیں پر بھی سر نہیں رکھتے
یقین کیجئے ہم تو اصول والے ہیں
پراۓ دھن پہ کبھی بد نظر نہیں رکھتے
جو ہم نے سیکھا ہے دنیا میں وہ سکھاتے ہیں
چھپا کے اپنا کبھی ہم ہنر نہیں رکھتے
نہ جانے آنے لگے کب کہاں سے سنگ کوئی
یہ سوچ کر ہی تو شیشے کا گھر نہیں رکھتے
کبھی پہنچ نہیں پائے جو اپنی منزل تک
ہم اپنے ذہن میں ایسی ڈگر نہیں رکھتے
وہ بد گمان ہوئے ہیں کسی کے کہنے سے
ارادہ ترکِ وفا کا مگر نہیں رکھتے
وہ جو بھی کہتے ہیں اکثر ہی منہ پہ کہتے ہیں
کبھی بھی شکوہ وہ دل میں ثمر نہیں رکھتے
سمیع احمد ثمرؔ
No comments:
Post a Comment