Urdu Deccan

Tuesday, September 21, 2021

سمیع احمد ثمر

 سوا خدا کے کسی کا بھی ڈر نہیں رکھتے

جھکا کے اپنا کہیں پر بھی سر نہیں رکھتے


یقین کیجئے ہم تو اصول والے ہیں

پراۓ دھن پہ کبھی بد نظر نہیں رکھتے


جو ہم نے سیکھا ہے دنیا میں وہ سکھاتے ہیں

چھپا کے اپنا کبھی ہم ہنر نہیں رکھتے


نہ جانے آنے لگے کب کہاں سے سنگ کوئی

یہ سوچ کر ہی تو شیشے کا گھر نہیں رکھتے


کبھی پہنچ نہیں پائے جو اپنی منزل تک

ہم اپنے ذہن میں ایسی ڈگر نہیں رکھتے


وہ بد گمان ہوئے ہیں کسی کے کہنے سے

ارادہ ترکِ وفا کا مگر نہیں رکھتے


وہ جو بھی کہتے ہیں اکثر ہی منہ پہ کہتے ہیں 

کبھی بھی شکوہ وہ دل میں ثمر نہیں رکھتے


سمیع احمد ثمرؔ


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...