یوم پیدائش 05 اکتوبر 1971
کوئی باہر سے کوئی اندر اندر ٹوٹ جاتا ہے
جب انساں آتا ہے گردش کی زد پر ٹوٹ جاتا ہے
اگر میں مٹ گیا حالات سے تو اس میں حیرت کیا
مسلسل چوٹ پڑتی ہے تو پتھر ٹوٹ جاتا ہے
سحر کے وقت جب سورج نکلنا چاہتا ہے تو
فلک کی گود میں تاروں کا لشکر ٹوٹ جاتا ہے
نہیں ہے بد نصیبی یہ تو اس کو کیا کہا جائے
بھلا لگتا ہے جو آنکھوں کو منظر ٹوٹ جاتا ہے
خوشی کا دور آئے گا لیے ہیں خواب آنکھوں میں
مگر کیا کیجئے یہ خواب اکثر ٹوٹ جاتا ہے
قمر انجم
No comments:
Post a Comment