یوم پیدائش 21 اکتوبر 1951
ساعت آسودگی دیکھے ہوئے عرصہ ہوا
مفلسی کو میرے گھر ٹھہرے ہوئے عرصہ ہوا
لمحۂ راحت رسا دیکھے ہوئے عرصہ ہوا
ماں ترے شانے پہ سر رکھے ہوئے عرصہ ہوا
ہجر کی تاریکیوں کا سلسلہ ہے دور تک
چاندنی کو چاند سے بچھڑے ہوئے عرصہ ہوا
زندگی بے خواب لمحوں میں سمٹ کر رہ گئی
ہجر میں تیرے پلک جھپکے ہوئے عرصہ ہوا
خوف سے سہما ہوا ہے دل پرندہ آج بھی
سر سے سیلاب الم گزرے ہوئے عرصہ ہوا
دل کو رہتا ہے مسلسل منتشر ہونے کا خوف
یعنی اندر سے مجھے ٹوٹے ہوئے عرصہ ہوا
کاروبار زیست میں کچھ اس قدر الجھا کہ بس
تیرے بارے میں بھی کچھ سوچے ہوئے عرصہ ہوا
اے ہجوم آرزو اب چاہتا ہوں تخلیہ
خانۂ دل میں تجھے رہتے ہوئے عرصہ ہوا
میں کہاں ہوں کون سی منزل میں ہوں کوئی بتائے
مجھ کو اپنی کھوج میں نکلے ہوئے عرصہ ہوا
دشمنی گم ہو گئی ہے دوستوں کی بھیڑ میں
چہرہ ہائے دشمناں دیکھے ہوئے عرصہ ہوا
جا تو اپنی راہ لے اب اے دل عشرت طلب
پہلوئے شہبازؔ میں بیٹھے ہوئے عرصہ ہوا
شہباز ندیم ضیائی
No comments:
Post a Comment