یوم پیدائش 02 اکتوبر 1958
حسرت ہے جن کےدل میں انہیں خسروی ملے
ہم کو بس ایک چشمِ کرم آپ کی ملے
فرقت کو میری دیکھ کے ائے ہنسنےوالے سن
تجھ کوبھی غم کی شام ملے بےرخی ملے
مدت کےبعدوصل کی خوشیاں ملیں مجھے
کہدو غمِ حیات سے وہ پھرکبھی ملے
کیجئےنہ شورو غل مری تربت پہ آکےآپ
زیرِ زمیں تو مجھ کو ذراخامشی ملے
انسان کس جہان میں بستےہیں تم بتاؤ
ہم کوتو جتنےلوگ ملے آدمی ملے
منظؔورلکھ رہاہوں میں عرصہ دراز سے
اللہ کرےسخن میں مجھے پختگی ملے
منظؔوراحمد
No comments:
Post a Comment