یوم پیدائش 10 اکتوبر 1958
اگر وہ مل کے بچھڑنے کا حوصلہ رکھتا
تو درمیاں نہ مقدر کا فیصلہ رکھتا
وہ مجھ کو بھول چکا اب یقین ہے ورنہ
وفا نہیں تو جفاؤں کا سلسلہ رکھتا
بھٹک رہے ہیں مسافر تو راستے گم ہیں
اندھیری رات میں دیپک کوئی جلا رکھتا
مہک مہک کے بکھرتی ہیں اس کے آنگن میں
وہ اپنے گھر کا دریچہ اگر کھلا رکھتا
اگر وہ چاند کی بستی کا رہنے والا تھا
تو اپنے ساتھ ستاروں کا قافلہ رکھتا
جسے خبر نہیں خود اپنی ذات کی زریںؔ
وہ دوسروں کا بھلا کس طرح پتا رکھتا
عفت زریں
No comments:
Post a Comment