یوم پیدائش 09 اکتوبر 1931
یہ شہر شہر سر عام اب منادی ہے
نہ وہ رہے گا ملاقات کا جو عادی ہے
زمین دی ہے کھلی دھوپ دی ہوا دی ہے
بہ نام زندگی کیسی کڑی سزا دی ہے
میں اپنے آپ سے کیا پوچھتا ہوں رہ رہ کر
یہ کیوں لگے کہ کسی نے مجھے صدا دی ہے
ترا ہی روپ کوئی تھا یہاں جب آیا تھا
یہ دیکھ وقت نے اب شکل کیا بنا دی ہے
دعا سلام تو تھی رسم ربط سے تھی مراد
سو میرے شہر نے یہ رسم ہی اٹھا دی ہے
فقط صدا ہی سنو کیوں نظر نہ آئے گی
کہ اب تو بیچ کی دیوار بھی گرا دی ہے
تمام عمر نہ اس کو کسی نے پہچانا
جو اس کے منہ پہ تھی چادر وہ کیوں ہٹا دی ہے
یہ اب گھروں میں نہ پانی نہ دھوپ ہے نہ جگہ
زمیں نے تلخؔ یہ شہروں کو بد دعا دی ہے
منموہن تلخ
No comments:
Post a Comment