یوم پیدائش 25 اکتوبر
بچا باقی تو جل کر کچھ نہیں ہے
مرے کمرے کے اندر کچھ نہیں ہے
شفق کرتی ہے پردہ شب جو آئے
حیا بن اور زیور کچھ نہیں ہے
سوائے نام کے تیرے مری جاں
مجھے دنیا میں ازبر کچھ نہیں ہے
مجھے تم زہر کی پڑیا پلا دو
یہ گولی خواب آور کچھ نہیں ہے
اگرچہ کر رہا ہے ان کو زخمی
بنا انگور کیکر کچھ نہیں ہے
ہزاروں بار ٹھوکر تم لگاؤ
تمہاری ایک ٹھوکر کچھ نہیں ہے
کرے پیدا یہ حرکت جھیل میں پر
بذاتِ خود یہ پتھر کچھ نہیں ہے
نہیں رکھا جو تم نے اس کو دل میں
تو میرے دل سا بے گھر کچھ نہیں ہے
ہر اک شے سے اٹھا ہے ماوراؔ دل
نظر کا جگ میں محور کچھ نہیں ہے
ماوراؔ عنایت
No comments:
Post a Comment