یوم پیدائش 16 اکتوبر 1917
جو تھکے تھکے سے تھے حوصلے وہ شباب بن کے مچل گئے
وہ نظر نظر سے گلے ملے تو بجھے چراغ بھی جل گئے
یہ شکست دید کی کروٹیں بھی بڑی لطیف و جمیل تھیں
میں نظر جھکا کے تڑپ گیا وہ نظر بچا کے نکل گئے
نہ خزاں میں ہے کوئی تیرگی نہ بہار میں کوئی روشنی
یہ نظر نظر کے چراغ ہیں کہیں بجھ گئے کہیں جل گئے
جو سنبھل سنبھل کے بہک گئے وہ فریب خوردۂ راہ تھے
وہ مقام عشق کو پا گئے جو بہک بہک کے سنبھل گئے
جو کھلے ہوئے ہیں روش روش وہ ہزار حسن چمن سہی
مگر ان گلوں کا جواب کیا جو قدم قدم پہ کچل گئے
نہ ہے شاعرؔ اب غم نو بہ نو نہ وہ داغ دل نہ وہ آرزو
جنہیں اعتماد بہار ہے وہی پھول رنگ بدل گئے
شاعر لکھنوی
No comments:
Post a Comment