یوم پیدائش 01 اکتوبر 1951
خزاں میں اوڑھ کے قول و قرار کا موسم
بہار ڈھونڈ رہی ہے بہار کا موسم
وو میرے ساتھ نہیں ہیں تو دل کے صحرا پر
سمے بکھیر رہا ہے بہار کا موسم
فریب خود کو نا دے گا تو اور کیا دے گا
نا راس آئے جسے اعتبار کا موسم
تمہارے قرب کی مدھم سی اک حرارت سے
ہے ڈھیر راکھ تلے انتظار کا موسم
حنیف ترین
یوم پیدائش 01 اکتوبر 1951
غالب ہے مرا حوصلہ ، مغلوب نہیں ہوں
ہےجرم ضعیفی، پہ میں محجوب نہیں ہوں
ہیں سخت چٹانوں کی طر ح میرے ارادے
تم گھول کے پی جاؤ وہ مشروب نہیں ہوں
ہوں بحرِ انا حسن کی امواج میں غلطاں
لذت کے سرابوں سے میں منصوب نہیں ہوں
لوٹے ہیں مزے سکر کے بھی خود میں اتر کر
ہُو، حق، میں جو کھویا ہو وہ مجذوب نہیں ہوں
طالب نئے خوابوں کا رہا ہوں میں ہمیشہ
میں کہنہ روایات کو مطلوب نہیں ہوں
کل جس کی مورّ خ نئی تار یخ لکھے گا
کیا وہ میں حنیف آج کا مکتوب نہیں ہوں
حنیف ترین
No comments:
Post a Comment