Urdu Deccan

Friday, October 1, 2021

آزاد حسین آزاد

 یوم پیدائش 01 اکتوبر


راستے ہیں بڑے سنسان کہاں جاتا ہے 

رات گہری ہے مری مان کہاں جاتا ہے


ریل کے شور مچاتے ہوئے انجن کے طفیل

رونے والوں کی طرف دھیان کہاں جاتا ہے 


تیرے مصلوب گداگر نے یہیں رہنا ہے

پھٹ بھی جائے تو،،،، ،،گریبان کہاں جاتا ہے


آخرِ عمر بھی اس وصل کی خواہش پہ نثار

جان جاتی ہے پہ ارمان کہاں جاتا ہے


کون خاموش طبیعت سا نکل آتا ہے 

تجھ سے مل کر مرا ہیجان ، کہاں جاتا ہے


ایک آواز کے ہانکے ہوئے، ہم محوِ سفر 

دیکھیے لے کے یہ وجدان کہاں جاتا ہے 


اس سرائے سے نکل جانے کے رستے کم ہیں

دل میں ٹہرا ہوا مہمان کہاں جاتا ہے


بعد مرنے کے کہاں جاتی ہیں روحیں آزاد

کاش معلوم ہو انسان کہاں جاتا ہے


آزاد حسین آزاد


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...