یوم پیدائش 01 اکتوبر
راستے ہیں بڑے سنسان کہاں جاتا ہے
رات گہری ہے مری مان کہاں جاتا ہے
ریل کے شور مچاتے ہوئے انجن کے طفیل
رونے والوں کی طرف دھیان کہاں جاتا ہے
تیرے مصلوب گداگر نے یہیں رہنا ہے
پھٹ بھی جائے تو،،،، ،،گریبان کہاں جاتا ہے
آخرِ عمر بھی اس وصل کی خواہش پہ نثار
جان جاتی ہے پہ ارمان کہاں جاتا ہے
کون خاموش طبیعت سا نکل آتا ہے
تجھ سے مل کر مرا ہیجان ، کہاں جاتا ہے
ایک آواز کے ہانکے ہوئے، ہم محوِ سفر
دیکھیے لے کے یہ وجدان کہاں جاتا ہے
اس سرائے سے نکل جانے کے رستے کم ہیں
دل میں ٹہرا ہوا مہمان کہاں جاتا ہے
بعد مرنے کے کہاں جاتی ہیں روحیں آزاد
کاش معلوم ہو انسان کہاں جاتا ہے
آزاد حسین آزاد
No comments:
Post a Comment