یوم پیدائش 13 نومبر
پانی برسا تھا کہیں آگ کہیں چھائی تھی
خاک چھانی تھی جہاں، خاک وہیں چھائی تھی
آسماں روند دیے پاؤں میں کتنے ہی مگر
اب کہ اپنے سروں پر ایک زمیں چھائی تھی
طعنہ زن رہتے تھے جس پر سبھی منبر والے
ہندو بستی میں وہی ماہ جبیں چھائی تھی
جیسے سیاروں کا سورج کے ہے اطراف حصار
گھر کے مالک پہ اسی طرح مکیں چھائی تھی
اس کے چہرے سے چھلکتا تھا کئی حوروں کا حسن
اس کے سینے کے قریں خلدِ بریں چھائی تھی
مجھ کو معلوم تھی اول سے حقیقت اس کی
سو مرے ذہن پہ اک پل بھی نہیں چھائی تھی
چاہتے تھے جو اگا لیتے تھے آسانی سے
اپنے اطراف میں زرخیز زمیں چھائی تھی
حمزہ میر
No comments:
Post a Comment