Urdu Deccan

Friday, November 12, 2021

علامہ اقبال

 یہ پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صُبح گاہی

کہ خودی کے عارفوں کا ہے مقام پادشاہی


تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے

جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رُوسیاہی


نہ دیا نشانِ منزل مجھے اے حکیم تُو نے

مجھے کیا گِلہ ہو تجھ سے، تُو نہ رہ‌نشیں نہ راہی


مرے حلقۂ سخن میں ابھی زیرِ تربیت ہیں

وہ گدا کہ جانتے ہیں رہ و رسمِ کجکلاہی


یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تُو کر

کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریقِ خانقاہی


تُو ہُما کا ہے شکاری، ابھی ابتدا ہے تیری

نہیں مصلحت سے خالی یہ جہانِ مُرغ و ماہی


تُو عَرب ہو یا عجَم ہو، ترا ’ لَا اِلٰہ اِلاَّ‘

لُغَتِ غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی


علامہ اقبال


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...