یوم پیدائش 31 اکتوبر 1954
نظم عورت اور نمک
عزت کی بہت سی قسمیں ہیں
گھونگھٹ تھپڑ گندم
عزت کے تابوت میں قید کی میخیں ٹھونکی گئی ہیں
گھر سے لے کر فٹ پاتھ تک ہمارا نہیں
عزت ہمارے گزارے کی بات ہے
عزت کے نیزے سے ہمیں داغا جاتا ہے
عزت کی کنی ہماری زبان سے شروع ہوتی ہے
کوئی رات ہمارا نمک چکھ لے
تو ایک زندگی ہمیں بے ذائقہ روٹی کہا جاتا ہے
یہ کیسا بازار ہے
کہ رنگ ساز ہی پھیکا پڑا ہے
خلا کی ہتھیلی پہ پتنگیں مر رہی ہیں
میں قید میں بچے جنتی ہوں
جائز اولاد کے لئے زمین کھلنڈری ہونی چاہئے
تم ڈر میں بچے جنتی ہو اسی لئے آج تمہاری کوئی نسل نہیں
تم جسم کے ایک بند سے پکاری جاتی ہو
تمہاری حیثیت میں تو چال رکھ دی گئی ہے
ایک خوب صورت چال
چھوٹی مسکراہٹ تمہارے لبوں پہ تراش دی گئی ہے
تم صدیوں سے نہیں روئیں
کیا ماں ایسی ہوتی ہے
تمہارے بچے پھیکے کیوں پڑے ہیں
تم کس کنبے کی ماں ہو
ریپ کی قید کی بٹے ہوئے جسم کی
یا اینٹوں میں چنی ہوئی بیٹیوں کی
بازاروں میں تمہاری بیٹیاں
اپنے لہو سے بھوک گوندھتی ہیں
اور اپنا گوشت کھاتی ہیں
یہ تمہاری کون سی آنکھیں ہیں
یہ تمہارے گھر کی دیوار کی کون سی چنائی ہے
تم نے میری ہنسی میں تعارف رکھا
اور اپنے بیٹے کا نام سکہ رائج الوقت
آج تمہاری بیٹی اپنی بیٹیوں سے کہتی ہے
میں اپنی بیٹی کی زبان داغوں گی
لہو تھوکتی عورت دھات نہیں
چوڑیوں کی چور نہیں
میدان میرا حوصلہ ہے
انگارہ میری خواہش
ہم سر پہ کفن باندھ کر پیدا ہوئے ہیں
کوئی انگوٹھی پہن کر نہیں
جسے تم چوری کر لو گے
سارا شگفتہ
No comments:
Post a Comment