یوم پیدائش 19 نومبر 1915
پھر ترے ہجر کے جذبات نے انگڑائی لی
تھک کے دن ڈوب گیا رات نے انگڑائی لی
جیسے اک پھول میں خوشبو کا دیا جلتا ہے
اس کے ہونٹوں پہ شکایات نے انگڑائی لی
سرخ ہی سرخ ہے اس شہر کا منظر نامہ
امن ہوتے ہی فسادات نے انگڑائی لی
ہم بھی اس جنگ میں فی الحال کیے لیتے ہیں صلح
دیکھا جائے گا جو حالات نے انگڑائی لی
گرمیٔ آہ سے نم ہو گئیں آنکھیں اے دوست
بڑھ گیا حبس تو برسات نے انگڑائی لی
فاصلہ رنج و مسرت میں بس اک سانس کا ہے
مسکرائے تھے کہ صدمات نے انگڑائی لی
جھیل جیسی وہ چمکتی ہوئی آنکھیں تسنیمؔ
ان میں ڈوبے تھے کہ نغمات نے انگڑائی لی
تسنیم فاروقی
No comments:
Post a Comment