بوسے لئے اجل کے ، اذیت تمام شد
اے عشقِ نا مراد ، مصیبت تمام شد
چھوڑا جو مہ جبینوں کو دل پارسا ہوا
صد شکر ساحروں کی حکومت تمام شد
منظورِ انجمن ہوا جب سے یہ بے نوا
مقدور مل گیا تو ضرورت تمام شد
مخلص اگر ملا بھی تو مفلس کے بھیس میں
ثروت جو ہاتھ آئی ، عقیدت تمام شد
حاتم تمہارے نام کی بنیاد ہے فقیر
سائل ہی اٹھ گیا تو سخاوت تمام شد
جتنے محل نشین تھے پتھر کے ہوگئے
شکوے پہ خاک ڈالیں، شکایت تمام شد
شاہد جفائے یار سے صد معذرت ، کہ دل
رخصت ہوا جہاں سے ، سہولت تمام شد
شاہد عباس ملک
No comments:
Post a Comment