وہ منہ جب کھول دیتے ہیں
لبوں سے پھول جھڑتے ہیں
شناسائی جو ہیں میرے
وہی خوشیوں سے جلتے ہیں
نہیں علم و ہنر کوئی
خیالِ خام رکھتے ہیں
ہمیشہ چھپ کے وہ مجھ سے
مری باتوں کو سنتے ہیں
حقیقت ہے مرے دلبر
تری خاطر ہی رکتے ہیں
جنہیں پیاری نہیں عزت
وہ سستے دام بکتے ہیں
بھری محفل میں اپنے بھی
رلا کر خوب ہنستے ہیں
کبھی ملنے نہیں آتے
بہت مصروف رہتے ہیں
تری یادوں میں کھو کر ہم
سدا گھٹ گھٹ کے جیتے ہیں
تمہارے چاہنے والے
شرابِ عشق پیتے ہیں
ذرا سے بات سن کر وہ
بہت مایوس ہوتے ہیں
جو کرتے ہیں بڑی باتیں
وہی ٹکڑوں پہ پلتے ہیں
ابھی تکلیف نہ دینا
دلوں کے زخم سلتے ہیں
ہو ماضی حال و مستقبل
سدا لڑتے ہی لڑتے ہیں
مجھے افسوس ہے بے حد
کہ سکے کھوٹے چلتے ہیں
لگا کے مجھ کو سینے سے
دعائیں خوب دیتے ہیں
وہ تجھ سے کرتے ہیں الفت
تجھے ہی یاد کرتے ہیں
جنہیں آتا نہیں کچھ بھی
حماقت پہلے کرتے ہیں
کبھی لڑنا نہیں یارو
وقارِ نوری کہتے ہیں
محمد وقار احمد نوری
No comments:
Post a Comment