Urdu Deccan

Tuesday, November 16, 2021

جاوید عارف

 نکلا تری تلاش میں پہنچا کدھر کو میں 

کیا دوش دوں نصیب کو یا راہگزر کو میں

 

کوئی چراغ ساتھ نہ اسباب ہم سفر

کیسے کروں گا طے شبِ غم کے سفر کو میں 


حاجت طبیب کی نہ دوا کی رہے گی پھر

چھو لوں جو ایک بار ترے سنگِ در کو میں


دل کو متاعِ غم نے ہی سیراب کر دیا

ٹھکرا چکا ہوں اس لئے لعل و گہر کو میں  


ہوتے قدم قدم پہ ہیں اس راہ حادثے 

رکھ لوں گا ساتھ ساتھ کسی نوحہ گر کو میں 


میرے خلاف آج وہی شخص ہے کھڑا 

جس پر لٹا چکا ہوں کہ جان و جگر کو میں


عارف جو لاکھ ہجر میں یوں ضبط بھی کروں 

ممکن نہیں کہ روک سکو ں چشم ِ تر کو میں


   جاوید عارف


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...