نکلا تری تلاش میں پہنچا کدھر کو میں
کیا دوش دوں نصیب کو یا راہگزر کو میں
کوئی چراغ ساتھ نہ اسباب ہم سفر
کیسے کروں گا طے شبِ غم کے سفر کو میں
حاجت طبیب کی نہ دوا کی رہے گی پھر
چھو لوں جو ایک بار ترے سنگِ در کو میں
دل کو متاعِ غم نے ہی سیراب کر دیا
ٹھکرا چکا ہوں اس لئے لعل و گہر کو میں
ہوتے قدم قدم پہ ہیں اس راہ حادثے
رکھ لوں گا ساتھ ساتھ کسی نوحہ گر کو میں
میرے خلاف آج وہی شخص ہے کھڑا
جس پر لٹا چکا ہوں کہ جان و جگر کو میں
عارف جو لاکھ ہجر میں یوں ضبط بھی کروں
ممکن نہیں کہ روک سکو ں چشم ِ تر کو میں
جاوید عارف
No comments:
Post a Comment