خزانہ دل میں علم وآگہی کا ہم بھی رکھتے ہیں
مٹانے تشنگی مٹّی کا کوزہ ہم بھی رکھتے ہیں
قلندرہیں ہمیں دربارِشاہی سے ھے کیا مطلب
وہاں تک باریابی کا وثیقہ ہم بھی رکھتے ہیں
چمن میں پھولنے پھلنے کا موقع کیوں نہیں حاصل
سرِشاخِ تمنّاآشیانہ ہم بھی رکھتے ہیں
ابھی طاقِ گماں میں کچھ دھواں باقی ھے ماضی کا
یقیں انگیز بنناہوتو سرمہ ہم بھی رکھتے ہیں
نواحِ شہرِ جاں میں آگ برسانے کی خوُ کب تک
بجھانے آگ نوحی پاک دریا ہم بھی رکھتے ہیں
ترے نقشِ قدم ہیں چاند کے سینے پہ، حیرت کیا
اُسے دونیم کرنے کا اشارا ہم بھی رکھتے ہیں
اگر زنخیر ٹوٹے پاسداری کی ظہیر اک دن
ہُنر حلقوں کو پھر سے جوڑنے کا ہم بھی رکھتے ہیں
ظہیر ناصری محبوب نگر
No comments:
Post a Comment