یوم پیدائش 14 نومبر 1964
خواب کے حسن کا الطاف نہیں پاتا ہوں
اس کو تعبیر کا ملبوس جو پہناتا ہوں
جب کبهی حسنِ سماعت کا بدن پاتا ہوں
"تیری آواز کے قدموں سے لپٹ جاتا ہوں"
مجھ کو دستک پہ بهی ملتی نہیں کردار کی بھیک
درِ افسانہ سے خالی ہی پلٹ آتا ہوں
آ گئی راس مجھے ہجر کی بے چین فضا
اب تری پیشکشِ قرب کو ٹھکراتا ہوں
جب بھی تنہائی تری یاد سے ملواتی ہے
دل پہ کھائی ہوئی اک چوٹ کو سہلاتا ہوں
دن فقط سوچ کی دیتا ہے سہولت پیارے
رات ہونے دے، ترے خواب میں آ جاتا ہوں
یوں رہِ زیست سرابوں سے اٹی ہے کہ نہ پوچھ
پانی بھرنے کے لیے دشت میں آ جاتا ہوں
عمر آوازوں کے جنگل میں گزاری ہے فصیح
بات کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ چِلّاتا ہوں
شاہین فصیح ربانی
No comments:
Post a Comment