یوم پیدائش 27 نومبر 1927
زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے
گھاس اس قبر پہ کچھ اور ہری لگتی ہے
روز کاغذ پہ بناتا ہوں میں قدموں کے نقوش
کوئی چلتا نہیں اور ہم سفری لگتی ہے
آنکھ مانوس تماشا نہیں ہونے پاتی
کیسی صورت ہے کہ ہر روز نئی لگتی ہے
گھاس میں جذب ہوئے ہوں گے زمیں کے آنسو
پاؤں رکھتا ہوں تو ہلکی سی نمی لگتی ہے
سچ تو کہہ دوں مگر اس دور کے انسانوں کو
بات جو دل سے نکلتی ہے بری لگتی ہے
میرے شیشے میں اتر آئی ہے جو شام فراق
وہ کسی شہر نگاراں کی پری لگتی ہے
بوند بھر اشک بھی ٹپکا نہ کسی کے غم میں
آج ہر آنکھ کوئی ابر تہی لگتی ہے
شور طفلاں بھی نہیں ہے نہ رقیبوں کا ہجوم
لوٹ آؤ یہ کوئی اور گلی لگتی ہے
گھر میں کچھ کم ہے یہ احساس بھی ہوتا ہے سلیمؔ
یہ بھی کھلتا نہیں کس شے کی کمی لگتی ہے
سلیم احمد
No comments:
Post a Comment