تجھ سے اک کیا ہوئی شناسائی
آنکھ ہر ہو گئی تماشائی
تو بھی اپنا نہیں تھا دوست مرے
بات یہ دیر سے سمجھ آئی
بھول جانے پہ تھا بہت موقوف
پر تجھے بھول ہی نہیں پائی
نام تیرا لیا کسی نے کہیں
آنکھ اشکوں سے میری بھر آئی
میرےکمرے میں دو ہی چیزیں ہیں
ایک میں ایک میری تنہائی
ہم جہاں سے چلے تھے دکھ لے کر
زندگی کیوں ہمیں وہیں لائی
ہم محبت کسی سے کر بیٹھے
ہم نے اس جرم کی سزا پائی
بین کرتا ہے دل کسی کا سحر
بج رہی ہے کہیں پہ شہنائی
نادیہ سحر
No comments:
Post a Comment