یوم پیدائش 21 نومبر 1975
آرزو اے دل کا پیکر دل فریب
کیا بتائیں اے گلِ تر دل فریب
حالتِ ابتر کو میری دیکھ کر
رو پڑا پھولوں سا پیکر دل فریب
دے گیا دشمن کو ہائے تقویت
ڈوبنے کا میرے منظر دل فریب
بے خیالی میں ہو ئ مجھ سے خطا
جو پہن لی میں نے جھانجر دل فریب
سوزِ دل کا اب سبب مت پوچھیے
کیجیے بس ذکرِ دلبر دل فریب
بعد مدت کے کھلی دل کی کلی
دیکھ کے پھولوں سا پیکر دل فریب
شازیہ علم و ہنر کی گود سے
چن لو کچھ نایاب گوہر دل فریب
شازیہ طارق
No comments:
Post a Comment