یوم پیدائش 29 نومبر 1895
رونقوں پر ہیں بہاریں ترے دیوانوں سے
پھول ہنستے ہوئے نکلے ہیں نہاں خانوں سے
لاکھ ارمانوں کے اجڑے ہوئے گھر ہیں دل میں
یہ وہ بستی ہے کہ آباد ہے ویرانوں سے
لالہ زاروں میں جب آتی ہیں بہاریں ساقی
آگ لگ جاتی ہے ظالم ترے پیمانوں سے
اب کوئی دیر میں الفت کا طلب گار نہیں
اٹھ گئی رسم وفا ہائے صنم خانوں سے
پاس آتے گئے جس درجہ بیابانوں کے
دور ہوتے گئے ہم اور بیابانوں سے
اب کے ہم راہ گزاریں گے جنوں کا موسم
دامنوں کی یہ تمنا ہے گریبانوں سے
اس زمانے کے وہ مے نوش وہ بدمست ہیں ہم
پارسا ہو کے نکلتے ہیں جو مے خانوں سے
ہائے کیا چیز ہے کیفیت سوز الفت
کوئی پوچھے یہ ترے سوختہ سامانوں سے
پھر بہار آئی جنوں خیز ہوائیں لے کر
پھر بلاوے مجھے آتے ہیں بیابانوں سے
خاک کس مست محبت کی ہے ساقی ان میں
کہ مجھے بوئے وفا آتی ہے پیمانوں سے
غیر کی موت پہ وہ روتے ہیں اور ہم افسرؔ
زہر پیتے ہیں چھلکتے ہوئے پیمانوں سے
افسر میرٹھی
No comments:
Post a Comment