Urdu Deccan

Saturday, November 20, 2021

اشفاق احمد صائم

 کبھی تو آؤ گی لوٹ کر تم 

آکے دیکھو گی راہگزر کو 

اک شکشتہ سا گھر ملے گا 

جس کی چوکھٹ سے بام تک اک

 زرد پتوں کی بیل ہو گی

جو سنائے گی داستانیں

اکیلے پن کی اداسیوں پر


ہاتھ اٹھے گا دستکوں کو 

در تو لیکن کھلا ملے گا

جیسے تم کو سدا ملا تھا


گھر کے آنگن میں دیکھنا تم

کتنی وحشت بھری پڑی ہے

سامنے اک گھڑی ہے دیکھو

جس پہ دو بج کے دس منٹ ہیں 

تیرے جاتے ہی ایک پل میں

وہ سارے لمحے ٹھہر گئے تھے

جو کہ اب تک رکے ہوئے ہیں 


یاد ہو گا نا میرا کمرہ

دیواریں جس کی بھری ہوئیں ہیں

اب بھی تیری ہی تصویروں سے

جس کی ساکن فضا میں اب تک

تمھاری خوشبو بسی ہوئی ہے

وہاں اک

 ضعیف سی میز ہو گی

جس پہ رکھے بوسیدہ کاغذ

ان پہ لکھی ادھوری نظمیں 

وہ اَدھ مِٹے سے حروف سارے

بتائیں گے تم کو کس طرح سے

ادھورے پن کے عذاب جھیلے 


کتنے سوکھے گلاب جن پر 

تمہاری اک ، اک ، سالگرہ کا 

دن بھی لکھا ، تاریخ بھی ہے


اکٹھے سارے گلاب کرنا 

پھر ان کا گن کے حساب کرنا 

کتنے سالوں سے تم نہ آئی


چھلک کے آنسو گریں گے ان پر 

اٹھا کے سارے بوسیدہ کاغذ

لگا کے دل سے گلاب سارے 

لپک کے بھاگو گی پھر گلی میں 

وہاں پہ بچے جو کھیلتے ہیں 

تم ان سے پوچھو گی جا کے میرا 

یہاں پہ بستا تھا ایک شاعر 

یہاں پہ رہتا تھا ایک صائم

کہاں ہے وہ ، اب کدھر گیا ہے

بچے حیرت سے تجھ کو دیکھیں گے

     " تم ہو وہ " 

تم ہو وہ

جس سے الفت نبھا نبھا کر

وہ جس کے قصے سنا سنا کر

وفا کو کر کے امر گیا وہ


تم نے آنے میں دیر کر دی


وہ تیرا شاعر، وہ تیرا صائم

برسوں پہلے ہی مر گیا وہ

تم نے آنے میں دیر کر دی 


اشفاق احمد صائم


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...