کبھی تو آؤ گی لوٹ کر تم
آکے دیکھو گی راہگزر کو
اک شکشتہ سا گھر ملے گا
جس کی چوکھٹ سے بام تک اک
زرد پتوں کی بیل ہو گی
جو سنائے گی داستانیں
اکیلے پن کی اداسیوں پر
ہاتھ اٹھے گا دستکوں کو
در تو لیکن کھلا ملے گا
جیسے تم کو سدا ملا تھا
گھر کے آنگن میں دیکھنا تم
کتنی وحشت بھری پڑی ہے
سامنے اک گھڑی ہے دیکھو
جس پہ دو بج کے دس منٹ ہیں
تیرے جاتے ہی ایک پل میں
وہ سارے لمحے ٹھہر گئے تھے
جو کہ اب تک رکے ہوئے ہیں
یاد ہو گا نا میرا کمرہ
دیواریں جس کی بھری ہوئیں ہیں
اب بھی تیری ہی تصویروں سے
جس کی ساکن فضا میں اب تک
تمھاری خوشبو بسی ہوئی ہے
وہاں اک
ضعیف سی میز ہو گی
جس پہ رکھے بوسیدہ کاغذ
ان پہ لکھی ادھوری نظمیں
وہ اَدھ مِٹے سے حروف سارے
بتائیں گے تم کو کس طرح سے
ادھورے پن کے عذاب جھیلے
کتنے سوکھے گلاب جن پر
تمہاری اک ، اک ، سالگرہ کا
دن بھی لکھا ، تاریخ بھی ہے
اکٹھے سارے گلاب کرنا
پھر ان کا گن کے حساب کرنا
کتنے سالوں سے تم نہ آئی
چھلک کے آنسو گریں گے ان پر
اٹھا کے سارے بوسیدہ کاغذ
لگا کے دل سے گلاب سارے
لپک کے بھاگو گی پھر گلی میں
وہاں پہ بچے جو کھیلتے ہیں
تم ان سے پوچھو گی جا کے میرا
یہاں پہ بستا تھا ایک شاعر
یہاں پہ رہتا تھا ایک صائم
کہاں ہے وہ ، اب کدھر گیا ہے
بچے حیرت سے تجھ کو دیکھیں گے
" تم ہو وہ "
تم ہو وہ
جس سے الفت نبھا نبھا کر
وہ جس کے قصے سنا سنا کر
وفا کو کر کے امر گیا وہ
تم نے آنے میں دیر کر دی
وہ تیرا شاعر، وہ تیرا صائم
برسوں پہلے ہی مر گیا وہ
تم نے آنے میں دیر کر دی
اشفاق احمد صائم
No comments:
Post a Comment