یوم پیدائش 17 نومبر 1923
مقتل جاں سے کہ زنداں سے کہ گھر سے نکلے
ہم تو خوشبو کی طرح نکلے جدھر سے نکلے
گر قیامت یہ نہیں ہے تو قیامت کیا ہے
شہر جلتا رہا اور لوگ نہ گھر سے نکلے
جانے وہ کون سی منزل تھی محبت کی جہاں
میرے آنسو بھی ترے دیدۂ تر سے نکلے
دربدری کا ہمیں طعنہ نہ دے اے چشم غزال
دیکھ وہ خواب کہ جس کے لیے گھر سے نکلے
میرا رہزن ہوا کیا کیا نہ پشیمان کہ جب
اس کے نامے میرے اسباب سفر سے نکلے
بر سر دوش رہے یا سر نیزہ یارب
حق پرستی کا نہ سودا کبھی سر سے نکلے
امید فاضلی
No comments:
Post a Comment