یوم پیدائش 07 دسمبر 1943
خود فریبی ہے دغا بازی ہے عیاری ہے
آج کے دور میں جینا بھی اداکاری ہے
تم جو پردیس سے آؤ تو یقیں آ جائے
اب کے برسات یہ سنتے ہیں بڑی پیاری ہے
میرے آنگن میں تو کانٹے بھی ہرے ہو نہ سکے
اس کی چھت پہ تو مہکتی ہوئی پھلواری ہے
چوڑیاں کانچ کی قاتل نہ کہیں بن جائیں
سحر انگیز بڑی ان کی گلوکاری ہے
کاش بجلی کوئی چمکے کوئی بادل برسے
آج کی شام زمینوں پہ بہت بھاری ہے
کھا گئی گرمئ جذبات کو رسموں کی ہوا
آج ہر شخص فقط برف کی الماری ہے
میں بھی رادھا سے کوئی کم تو نہیں ہوں شبنمؔ
سانولے رنگ کا میرا بھی تو گردھاری ہے
رفیعہ شبنم عابدی
No comments:
Post a Comment