یوم پیدائش 08 دسمبر 1925
گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے
مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال
بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے
ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہل دنیا نے
بقدر تشنہ لبی پرشس وفا نہ ہوئی
چھلک کے رہ گئے تیری نظر کے پیمانے
خیال آ گیا مانوس رہ گزاروں کا
پلٹ کے آ گئے منزل سے تیرے دیوانے
کہاں ہے تو کہ ترے انتظار میں اے دوست
تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے
امید پرسشِ غم کس سے کیجیے ناصرؔ
جو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئی کیا جانے
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment