Urdu Deccan

Friday, December 17, 2021

ناصر کاظمی

 یوم پیدائش 08 دسمبر 1925


گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے

خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے


مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال

بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے


ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا

یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہل دنیا نے


بقدر تشنہ لبی پرشس وفا نہ ہوئی

چھلک کے رہ گئے تیری نظر کے پیمانے


خیال آ گیا مانوس رہ گزاروں کا

پلٹ کے آ گئے منزل سے تیرے دیوانے


کہاں ہے تو کہ ترے انتظار میں اے دوست

تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے


امید پرسشِ غم کس سے کیجیے ناصرؔ

جو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئی کیا جانے


ناصر کاظمی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...