یوم پیدائش 30 دسمبر 1971
اگر سفر میں مرے ساتھ میرا یار چلے
طواف کرتا ہوا موسم بہار چلے
لگا کے وقت کو ٹھوکر جو خاکسار چلے
یقیں کے قافلے ہم راہ بے شمار چلے
نوازنا ہے تو پھر اس طرح نواز مجھے
کہ میرے بعد مرا ذکر بار بار چلے
یہ جسم کیا ہے کوئی پیرہن ادھار کا ہے
یہیں سنبھال کے پہنا یہیں اتار چلے
یہ جگنوؤں سے بھرا آسماں جہاں تک ہے
وہاں تلک تری نظروں کا اقتدار چلے
یہی تو ایک تمنا ہے اس مسافر کی
جو تم نہیں تو سفر میں تمہارا پیار چلے
آلوک شریواستو
No comments:
Post a Comment