یوم پیدائش 27 دسمبر 1968
غریبی میں امیری کے میں جب بھی خواب بنتا ہوں
کھلے جب آنکھ حسرت سے درو دیوار تکتا ہوں
زمانے کی ڈگر سے میں عموماً ہٹ کے چلتا ہوں
اسی خاطر تو لوگوں کی نگاہوں میں کھٹکتا ہوں
سفرمیں اس لئے مڑ مڑ کے میں پیچھے نہیں تکتا
میں خود ہی اپنی منزل بھی ہوں خود اپنا ہی رستہ ہوں
چھپائیں لاکھ اپنی شخصیت لفظوں کے پردے میں
سرِ محفل ہے کیسا کون میں سب کو سمجھتا ہوں
تجاوز کر چکی ہے عمر گو حدّ جوانی سے
ابھی تک گود میں ماں کی تصوّر میں مچلتا ہوں
مرے صیّادنے پنجرے میں میرے پر بھی باندھے ہیں
اسے ہے خوف میں پنجرہ پروں سے توڑ سکتا ہوں
مرے دشمن بھی حیراں ہیں مری اس سادہ لوحی پر
عدو کو بھی میں دل کے گوشہُ الفت میں رکھتا ہوں
جو ہیں سیراب پہلے ہی انہیں سیراب کیا کرنا
میں وہ بادل ہوں جو پیاسی زمینوں پر برستا ہوں
بشر اس واسطے اپنا تخلّص میں نے رکّھا ہے
بشر کی افضلیّت کو بخوبی میں سمجھتا ہوں
رشید بشر
No comments:
Post a Comment