یوم پیدائش 05 دسمبر 1973
درد کابوجھ ترے شہر سے لائے ہوئے لوگ
اب کہاں جائیں یہ زخموں کوسجائے ہوئے لوگ
ہیں اس آسیب کے ہر روپ سے انجان ابھی
یہ جو ہیں عشق حقیقت کوبھلائے ہوئے لوگ
کون کہتا ہے کہ زندہ ہیں بظاہر زندہ
روح کا بوجھ بدن میں ہی اٹھائے ہوئے لوگ
بنتے جاتے ہیں یہ تصویر گئے وقتوں کی
ہجرکے روگ کوسینے سے لگائے ہوئے لوگ
وہ جو کٹیا تھی جہاں عشق بسیرا تھا کبھی
وحشتوں کے ہیں وہاں اب تو ستایے ہوئے لوگ
ہیں یہی جن سے سلامت ہے محبت کاوجود
پھول پتھرمیں وفاؤں کے کھلائے ہوئے لوگ
حال پوچھونہ کبھی بچھڑے دلوں کاشاہیں
اپنے لاشوں کوہیں شانوں پہ اٹھائے ہوئے لوگ
نجمہ شاہین کھوسہ
No comments:
Post a Comment