Urdu Deccan

Friday, December 17, 2021

انجم عرفانی

 یوم پیدائش 09 دسمبر1937 


اب اس سادہ کہانی کو نیا اک موڑ دینا تھا

ذرا سی بات پر عہد وفا ہی توڑ دینا تھا


مہکتا تھا بدن ہر وقت جس کے لمس خوشبو سے

وہی گلدستہ دہلیز خزاں پر چھوڑ دینا تھا


شکست ساز دل کا عمر بھر ماتم بھی کیا کرتے

کہ اک دن ہنستے ہنستے ساز جاں ہی توڑ دینا تھا


سفر میں ہر قدم رہ رہ کے یہ تکلیف ہی دیتے

بہر صورت ہمیں ان آبلوں کو پھوڑ دینا تھا


غلط فہمی کے جھونکوں سے بکھر کر رہ گئے آخر

لہو کی آنچ میں ٹوٹے دلوں کو جوڑ دینا تھا


وہ جس پہ ذکر ہے قول و قسم اور عہد و پیماں کا

کتاب زندگی کے اس ورق کو موڑ دینا تھا


بنایا ہی نہیں ہم نے کبھی یہ سوچ کر انجمؔ

کہ گوتم کی طرح اک دن ہمیں گھر چھوڑ دینا تھا


انجم عرفانی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...